Urdu ghazal

ہر دھڑکن ہیجانی تھی ہر خاموشی طوفانی تھی
پھر بھی محبت صرف مسلسل ملنے کی آسانی تھی

جس دن اس سے بات ہوئی تھی اس دن بھی بے کیف تھا میں
جس دن اس کا خط آیا ہے اس دن بھی ویرانی تھی

جب اس نے مجھ سے یہ کہا تھا عشق رفاقت ہی تو نہیں
تب میں نے ہر شخص کی صورت مشکل سے پہچانی تھی

جس دن وہ ملنے آئی ہے اس دن کی روداد یہ ہے
اس کا بلاؤز نارنجی تھا اس کی ساری دھانی تھی

الجھن سی ہونے لگتی تھی مجھ کو اکثر اور وہ یوں
میرا مزاج عشق تھا شہری اس کی وفا دہقانی تھی

اب تو اس کے بارے میں تم جو چاہو وہ کہہ ڈالو
وہ انگڑائی میرے کمرے تک تو بڑی روحانی تھی

نام پہ ہم قربان تھے اس کے لیکن پھر یہ طور ہوا
اس کو دیکھ کے رک جانا بھی سب سے بڑی قربانی تھی

مجھ سے بچھڑ کر بھی وہ لڑکی کتنی خوش خوش رہتی ہے
اس لڑکی نے مجھ سے بچھڑ کر مر جانے کی ٹھانی تھی

عشق کی حالت کچھ بھی نہیں تھی بات بڑھانے کا فن تھا
لمحے لا فانی ٹھہرے تھے قطروں کی طغیانی تھی

جس کو خود میں نے بھی اپنی روح کا عرفاں سمجھا تھا
وہ تو شاید میرے پیاسے ہونٹوں کی شیطانی تھی

تھا دربار کلاں بھی اس کا نوبت خانہ اس کا تھا
تھی میرے دل کی جو رانی امروہے کی رانی تھی

جون ،ایلیا

 

ٹھہری ٹھہری سی طبیعت میں روانی آئی
آج پھر یاد محبت کی کہانی آئی

آج پھر نیند کو آنکھوں سے بچھڑتے دیکھا
آج پھر یاد کوئی چوٹ پرانی آئی

مدتوں بعد چلا ان پہ ہمارا جادو
مدتوں بعد ہمیں بات بنانی آئی

مدتوں بعد پشیماں ہوا دریا ہم سے
مدتوں بعد ہمیں پیاس چھپانی آئی

مدتوں بعد کھلی وسعت صحرا ہم پر
مدتوں بعد ہمیں خاک اڑانی آئی

مدتوں بعد میسر ہوا ماں کا آنچل
مدتوں بعد ہمیں نیند سہانی آئی

اتنی آسانی سے ملتی نہیں فن کی دولت
ڈھل گئی عمر تو غزلوں پہ جوانی آئی

اقبال اشہر

 

 

Urdu ghazal

بیٹھے بیٹھے کیسا دل گھبرا جاتا ہے
جانے والوں کا جانا یاد آ جاتا ہے

بات چیت میں جس کی روانی مثل ہوئی
ایک نام لیتے میں کچھ رک سا جاتا ہے

ہنستی بستی راہوں کا خوش باش مسافر
روزی کی بھٹی کا ایندھن بن جاتا ہے

دفتر منصب دونوں ذہن کو کھا لیتے ہیں
گھر والوں کی قسمت میں تن رہ جاتا ہے

اب اس گھر کی آبادی مہمانوں پر ہے
کوئی آ جائے تو وقت گزر جاتا ہے

زہرا نگاہ

 

Urdu ghzal
Urdu ghazal

گہری رات ہے اور طوفان کا شور بہت
گھر کے در و دیوار بھی ہیں کمزور بہت

تیرے سامنے آتے ہوئے گھبراتا ہوں
لب پہ ترا اقرار ہے دل میں چور بہت

نقش کوئی باقی رہ جائے مشکل ہے
آج لہو کی روانی میں ہے زور بہت

دل کے کسی کونے میں پڑے ہوں گے اب بھی
ایک کھلا آکاش پتنگیں ڈور بہت

مجھ سے بچھڑ کر ہوگا سمندر بھی بے چین
رات ڈھلے تو کرتا ہوگا شور بہت

آ کے کبھی ویرانئ دل کا تماشا کر
اس جنگل میں ناچ رہے ہیں مور بہت

اپنے بسیرے پنچھی لوٹ نہ پایا زیبؔ
شام گھٹا بھی اٹھی تھی گھنگھور بہت

زیب غوری

 

 

وہ چاند ہے تو عکس بھی پانی میں آئے گا
کردار خود ابھر کے کہانی میں آئے گا

چڑھتے ہی دھوپ شہر کے کھل جائیں گے کواڑ
جسموں کا رہ گزار روانی میں آئے گا

آئینہ ہاتھ میں ہے تو سورج پہ عکس ڈال
کچھ لطف بھی سراغ رسائی میں آئے گا

رخت سفر بھی ہوگا مرے ساتھ شہر میں
صحرا بھی شوق نقل مکانی میں آئے گا

پھر آئے گا وہ مجھ سے بچھڑنے کے واسطے
بچپن کا دور پھر سے جوانی میں آئے گا

کب تک لہو کے حبس سے گرمائے گا بدن
کب تک ابال آگ سے پانی میں آئے گا

صورت تو بھول بیٹھا ہوں آواز یاد ہے
اک عمر اور ذہن گرانی میں آئے گا

ساجدؔ تو اپنے نام کا کتبہ اٹھائے پھر
یہ لفظ کب لباس معانی میں آئے گا

اقبال ساجد

 

ندی نے دھوپ سے کیا کہہ دیا روانی میں
اجالے پاؤں پٹکنے لگے ہیں پانی میں

یہ کوئی اور ہی کردار ہے تمہاری طرح
تمہارا ذکر نہیں ہے مری کہانی میں

اب اتنی ساری شبوں کا حساب کون رکھے
بڑے ثواب کمائے گئے جوانی میں

چمکتا رہتا ہے سورج مکھی میں کوئی اور
مہک رہا ہے کوئی اور رات رانی میں

یہ موج موج نئی ہلچلیں سی کیسی ہیں
یہ کس نے پاؤں اتارے اداس پانی میں

میں سوچتا ہوں کوئی اور کاروبار کروں
کتاب کون خریدے گا اس گرانی میں
راحت اندوری

تمہارے نام پر میں نے ہر آفت سر پہ رکھی تھی
نظر شعلوں پہ رکھی تھی زباں پتھر پہ رکھی تھی

ہمارے خواب تو شہروں کی سڑکوں پر بھٹکتے تھے
تمہاری یاد تھی جو رات بھر بستر پہ رکھی تھی

میں اپنا عزم لے کر منزلوں کی سمت نکلا تھا
مشقت ہاتھ پہ رکھی تھی قسمت گھر پہ رکھی تھی

انہیں سانسوں کے چکر نے ہمیں وہ دن دکھائے تھے
ہمارے پاؤں کی مٹی ہمارے سر پہ رکھی تھی

راحت اندوری

 

 

سحر تک تم جو آ جاتے تو منظر دیکھ سکتے تھے
دیے پلکوں پہ رکھے تھے شکن بستر پہ رکھی تھی
شہریار

شدید پیاس تھی پھر بھی چھوا نہ پانی کو
میں دیکھتا رہا دریا تری روانی کو

سیاہ رات نے بے حال کر دیا مجھ کو
کہ طول دے نہیں پایا کسی کہانی کو

بجائے میرے کسی اور کا تقرر ہو
قبول جو کرے خوابوں کی پاسبانی کو

اماں کی جا مجھے اے شہر تو نے دی تو ہے
بھلا نہ پاؤں گا صحرا کی بیکرانی کو

جو چاہتا ہے کہ اقبال ہو سوا تیرا
تو سب میں بانٹ برابر سے شادمانی کو
راحت اندوری

سامنے جب کوئی بھرپور جوانی آئے
پھر طبیعت میں مری کیوں نہ روانی آئے

کوئی پیاسا بھی کبھی اس کی طرف رخ نہ کرے
کسی دریا کو اگر پیاس بجھانی آئے

میں نے حسرت سے نظر بھر کے اسے دیکھ لیا
جب سمجھ میں نہ محبت کے معانی آئے

اس کی خوشبو سے کبھی میرا بھی آنگن مہکے
میرے گھر میں بھی کبھی رات کی رانی آئے
شہریار

زندگی بھر مجھے اس بات کی حسرت ہی رہی
دن گزاروں تو کوئی رات سہانی آئے

زہر بھی ہو تو وہ تریاق سمجھ کر پی لے
کسی پیاسے کے اگر سامنے پانی آئے

عین ممکن ہے کوئی ٹوٹ کے چاہے ساقیؔ
کبھی ایک بار پلٹ کر تو جوانی آئے

امروہوی

اور کیا آخر تجھے اے زندگانی چاہیئے
آرزو کل آگ کی تھی آج پانی چاہیئے

یہ کہاں کی ریت ہے جاگے کوئی سوئے کوئی
رات سب کی ہے تو سب کو نیند آنی چاہیئے

اس کو ہنسنے کے لئے تو اس کو رونے کے لئے
وقت کی جھولی سے سب کو اک کہانی چاہیئے

کیوں ضروری ہے کسی کے پیچھے پیچھے ہم چلیں
جب سفر اپنا ہے تو اپنی روانی چاہیئے

کون پہچھانے گا دانشؔ اب تجھے کردار سے
بے مروت وقت کو تازہ نشانی چاہیئے
من موہن دانش

 

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here